Skip to main content

                  مسافر طیارہ حادثہ کے شکار لوگوں کی موت کا ذمہ دارکون؟  

 کل 7 دسمبر بروز بدھ جرال سے اسلام آباد آنے والی پرواز پی کے 661 حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔اس طیارے میں موجود ملک کے معروف نعت خواں جنید جمشید اور عملے کے 7 افرادسمیت تمام 47 مسافر اللہ کو پیارے ہو گئے۔''دل دل پاکستان'' کی آواز ہمیشہ کیلیے خاموش ہو گئی۔اس المناک سانحہ پر ہر ایک نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر بھی تبصرے ہو رہےہیں اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔یہ پہلہ موقعہ نہیں کہ کسی واقعہ پرقوم یک زباں ہوئی ہے۔اس سے پہلے بھی ہر قومی مسئلہ پر ایک ہوئی ہے 'کمیشن' بنائے گئے لیکن نتیجہ صفر۔اب تو کہا جاتا ہے کہ کسی مسئلہ کو دبانا ہے تو اس پر کمیشن بنا دو۔
               یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا سانحہ نہیں اس سے پہلے بھی کئی واقعات ہو چکے ہیں جن میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔1992 میں ائیربس ''اے 300"کھٹمنڈو کے قریب گر کے تباہ ہو گیا جس میں موجود تمام167 افراد جاں بحق ہو گئے۔اگست 1989 میں گلگت سے اسلام آباد آنے والا ‌فوکر ''27-F''گر کرتباہ ہو گیا۔تمام 54 مسافرجہان فانی سے کوچ کر گئے۔10 جولائی 2010 کو ملتان میں طیارہ گرتاہے جس میں 2 بریگئیڈر،2 ہائی کورٹ کے ججز سمیت 45 افراد لقمہ اجل بن گئے۔28 جولائی 2010 کو ہی ''ائیربلو''کا طیارہ اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں میں گر کر 152 افراد کو اپنے ساتھ لے گیا۔اس طرح ان واقعاات کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں پائلٹ یا کمپنی کی غفلت کی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
             طیارہ حادثہ پر ہر طرف سے مذمتی بیانات آرہے ہیں لیکن کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔اطلاعات کے مطابق طیارہ پرواز کیلیے تیار نہیں تھا اور انجینئر نے مرمت کا کہا تھا۔لیکن ''با کمال سروس با کمال لوگوں ''نے اس بارے سوچنا بھی گوارہ نہیں کیا۔سب سے افسوسناک بیان چئیرمین پی آئی اے کا ہے جن کا کہنا ہے کہ ''۔ہمیں امید تھی کہ طیارہ ایک انجن کے ساتھ منزل تک پہنچ جائے گا۔''یعنی انتظامیہ کو یہ بات معلوم تھی کہ طیارے کا ایک انجن کام کر رہا ہے اس کے باوجود اس کو پروازکی اجازت دینا جرم نہیں تو اور کیا ہے؟معروف اینکر مبشر لقمان نے اسی طیارے کے بارے میں جنوری 2015 میں انکشاف کیا تھا کہ یہ پرواز کے قابل نہیں اس انکشاف پر انہیں دھمکیاں دی گئیں۔لیکن کسی نے اس بارے تحقیق کی فرصت نا ملی۔
            اس حادثے نے ایک بار پھر اداروں کو جنجوڑا ہے کہ وہ اس پر انصاف کریں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے اداروں میں قابل افسران کی بجائے من پسند اور منظور نظر افراد کو ہی لگایاجاتا ہے۔پچھلی حکومت میں وزیر دفاع احمدمختار کے بھائی کو پی آئی اے کی چئیرمین کی سیٹ سے نوازہ گیا اور اس بار بھی حکومت کیلیے نرم رویہ رکھنے والے ایک انگریزی اخبار کے مالک کو اس سونے کی کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ان حماکتوں کا نتیجہ قوم اس وقت بھگت رہی ہے۔وہ پی آئی اے جو دنیا کی دوسری بہترین ائیرلائن تھی آج وہ کئی سال سے خسارے میں جا رہی ہے۔اتحاد ائیر لائن کوچلانے والے بھی پاکستانی ہی تھے۔آج اس کا شمار دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں ہوتا ہےاور ہمارا کئی ممالک میں داخلہ تک ممنوع ہے۔اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے ''کرپشن و بد عنوانی''۔
            چند ماہ پہلے جب پی آئی اے کی ''پریمئیر سروس''کا آغاز کا گیا تو اس کی تشہیر بھرپور طریقے سے کی گئی لیکن اس کا حال بھی باقی منصوبوں جیسا ہی ہوا۔قصہ مختصر یہ سروس بھی اپنے شاندارافتتاح کے چند ماہ بعد 32 کروڑ کے خسارے میں ہے۔حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ پی آئی اے کی تشکیل نو کی جائےاور میں موجود کالی بھیڑوں کا خاتمہ کیا جائے ورنہ ان 47 مسافروں کی موت کی اتنی ہی حکومت ہو گی جتنا کہ پی آئی ہے۔
           آخر میں جنید جمشید اور ان کے ساتھ شہید ہونے والوں کیلیے
                                ''ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں،،،،، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
                                تعبیر ہے جس کی حسرت وغم،،،،، اے ہم نفسو!وہ خواب ہیں ہم''

Comments

Popular posts from this blog

سسٹم بدلو،تقدیربدلو

سسٹم بدلو،تقدیربدلو     

احساس زیاں!!!